جمعرات، 15 جون، 2017

لیلۃ القدر اور اس کے مسائل

لیلۃ القدر اور اس کے مسائل
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت :
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)(سورۃ القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ
رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس سورت میں چند فضائل کا ذکر ہے ۔
٭ شب قدر میں قرآن کا نزول ہوا یعنی یکبارگی مکمل قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا جو تئیس سالوں میں قلب محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔
٭یہ قدرومنزلت والی رات ہے ، قدر کی تفصیل اللہ نے ہزار مہینوں سے بیان کی جو مبالغہ پر دلالت کرتاہے یعنی یہ رات ہزاروں مہ و سال سے بہتر ہے ۔
٭ یہ اس قدر عظیم رات ہے کہ اس میں فرشتوں بالخصوص جبریل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے ان کاموں کو سرانجام دینے جن کا فیصلہ اللہ تعالی اس سال کے لئے کرتا ہے ۔
٭ یہ مکمل رات سراپہ امن و سلامتی والی ہے ۔ مومن بندہ شیطان کے شر سے محفوظ ہوکر رب کی خالص عبادت کرتا ہے ۔
* اس رات سال میں ہونے والے موت وحیات اور وسائل حیات کے بارے میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ(الدخان:4)
ترجمہ: اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
٭ لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
* لیلۃ القدر کی فضیلت سے محروم ہونے والا ہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
دخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ هذا الشَّهرَ قَد حضرَكُم وفيهِ ليلةٌ خيرٌ مِن ألفِ شَهْرٍ من حُرِمَها فقد حُرِمَ الخيرَ كُلَّهُ ولا يُحرَمُ خيرَها إلَّا محرومٌٍ(صحيح ابن ماجه:1341)
ترجمہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تونبی ﷺنے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔
لیلۃ القدرکا تعین:
لیلۃ القدر کے تعین کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ملتے ہیں مگر راحج قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے
کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے کوئی ایک ہے ۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ .(صحيح البخاري:2017)
ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
کیا ستائیسویں کی رات لیلۃ القدر ہے ؟
بعض لوگوں نے 27 ویں کی رات کو  لیلۃ القدر قراردیا ہے جوصحیح نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض روایتوں میں شب قدر ستائیسویں کی رات بتلایا گیا ہے مگرستائیسویں کو ہی ہمیشہ کے لئے شب قدر قرار دینا غلط ہے ۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
اولا:  بخاری کی روایت اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں شب قدر کو پانچ طاق راتوں
میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، صرف ستائیسویں کی حدیث لیکر فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔
ثانیا: روایات میں ستائیسویں کے علاوہ دیگر رات کا بھی ذکر ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے شب قدر پانے کے لئے کبھی پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، کبھی درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا تو کبھی آخری عشرے میں اور آخر میں فرمایا:
إني أُريتُ ليلةَ القَدْرِ، ثم أُنْسيتُها، أو نُسِّيتُها، فالتمِسوها في العَشْرِ الأواخرِ في الوَتْرِ
(صحيح البخاري:2016، صحيح مسلم:1167)
ترجمہ: مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگرپھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ایک روایت میں ہے : مَن كان مُتَحَرِّيها فلْيَتَحَرَّها في السبعِ الأواخرِ(صحيح البخاري:2015، صحيح مسلم:1165)
ترجمہ : جس کو شب قدر کی تلاش کرنی ہووہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
ان کے علاوہ کسی روایت میں 21 کا ذکر ہے ، کسی میں 23 کا ذکر ہے ، کسی میں 25 کا ذکر ہے تو کسی میں 29 کا ذکر ہے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے عشراخیرکے اندر وسعت پائی جاتی ہے ، ان میں سبع اخیراور دیگر ساری روایات داخل ہیں۔اس وجہ سے شب قدر آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے ۔ یہی موقف اکثر اہل علم کاہے ۔ جہاں تک ستائیس کا مسئلہ ہے تو کسی سال ستائیس کی رات قدر کی رات کی ہوگی جیساکہ کبھی اکیس، کبھی تئیس ، کبھی پچیس تو کبھی انتیس رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہ رات ہرسال آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے ۔
ثالثا: نبی ﷺ کے فرامین کے علاوہ آپ کا عمل بھی ثابت کرتا ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا
لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے
 لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
لیلۃ القدر کی علامات:
احادیث میں اس شب کی چند نشانیاں ملتی ہیں۔
٭ صبح کے سورج میں شعاع نہیں ہوتی :هي ليلةُ صبيحةُ سبعٍ وعشرين . وأمارتُها أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها(صحيح مسلم:762)
ترجمہ: وہ (لیلۃ القدر) ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور
اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
٭لیلۃ القدر معتدل ہوتی ہے :ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ(صحيح الجامع:5475)
ترجمہ : قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ۔
٭کبھی بارش بھی ہوسکتی ہے:وإني رأيتُ كأني أسجدُ في طينٍ وماءٍ (صحيح البخاري:813)
ترجمہ: میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات مٹی اور پانی (کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں۔
علامات سے متعلق لوگوں میں غلط باتیں مشہور ہیں مثلا اس رات کتے نہیں بھوکتے ، گدھے کم بولتے ہیں ۔ سمندر کا کھارا پانی بھی میٹھا ہوجاتا ہے ۔ درخت زمین کو سجدہ کرتے ہیں پھر اپنی جگہ لوٹ جاتے ہیں ۔ ہرجگہ روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، اس دن شیطان سورج کے ساتھ نہیں نکل سکتا۔وغیرہ
لیلۃ القدر میں ہم کیا کریں ؟
حدیث میں لیلۃ القدرکے حصول کے لئے نبی ﷺ کے بالغ اجتہاد کا ذکر ملتا ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر
والوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہے ۔
(1) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب قدر میں عبادت پہ خوب خوب محنت کرناہے تاکہ ہم اس کی
فضیلت پاسکیں جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
قیام کے ساتھ ذکرودعا اور تلاوت و مناجات سے اس رات کو مزین کریں ۔ اس رات کی ایک خصوصی دعا ہے جو نبی ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے ۔
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال: تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ﴿ صحيح ابن ماجه:3119)
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو:" اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي"(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے معاف کردے)۔
سنن ترمذی میں عفو کے بعد "کریم" کی زیادتی ہے ، اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں یعنی یہ ثابت نہیں ہے ۔ 
باقی وسلّم ۔۔  اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رمضان المبارک کے مہینے میں صحیح عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے  آمین  
تحریر ۔ مقبول احمد سلفی داعی کمیٹی سعودی عرب نشر ۔واشاعت ۔ دعوت الی اللہ گروپ اسلامی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Www.dawateallaha.blogspot.com

اعتکاف کے مسائل

اعتکاف  کے مسائل
اعتکاف اور اس کا حکم:
اعتکاف کا تعلق رمضان کے آخری عشرے سے ہے ۔ یہ قرب الہی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس سے متعلق متعدد فضائل وارد ہیں مگر سب کے سب ضعیف ہیں تاہم اس کی مشروعیت وترغیب متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ ہاں اعتکاف عبادت ہے نیز مسجد میں اعتکاف کی بدولت مختلف قسم کی نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان سب کی فضیلت و اجر اپنی جگہ مسلم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ( البقرة:125)
ترجمہ:اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں۔
نیز اللہ کا فرمان ہے : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرة:187)
ترجمہ:اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
اور نبی ﷺ کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے :
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يعتكفُ العشرَ الأواخرَ من رمضانَ حتى توفاهُ اللهُ، ثم اعتكفَ
أزواجُهُ من بعدِهِ .(صحيح البخاري:2026، صحيح مسلم:1172)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ اجماع امت سے بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے جیساکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔(وشرح العمدة :2/711) .
دلائل کی رو سے اعتکاف واجب نہیں بلکہ سنت ہے الا یہ کہ کوئی اعتکاف کی نذر مان لے تو اس کے حق میں واجب ہوگا۔
اعتکاف کی جگہ:
جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے ۔ جیساکہ اوپرقرآن کی آیت سے واضح ہے اور نبی ﷺ نے اس پہ عمل کرکے دکھایا ہے ۔اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى مَسْجِدٍ
جَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
اعتکاف کا وقت :
نبی ﷺ نے رمضان میں اکثر دس دنوں کا اعتکاف کیا ہے اس لئے افضل ہے کہ رمضان
کے آخری عشرے میں دس دنوں کا اعتکاف کرے کیونکہ آخری عشرے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اعتکاف کی دل سے نیت کرے اور بیسویں رمضان کا سورج ڈوبتے ہی مسجد میں داخل ہوجائے ۔یہ اکیسویں کی رات ہوگی ۔ رات بھر ذکرواذکار اور نفلی عبادات میں مصروف رہے اور فجر کی نماز پڑھ کے اعتکاف کی جگہ پہ چلاجائے ۔ عید کا چاند ہوتے ہی اعتکاف ختم کردے ۔
اعتکاف کے مباح امور:
بحالت اعتکاف مسجد میں کھانا پینا،غسل کرنا،بقدرضرورت بات کرنا،تیل خوشبو استعمال کرنا،بغیر شہوت بیوی سے بات چیت اور اسے چھونا، ناگزیر ضرورت کے لئے باہرجانا مثلا مسجد میں بیت الخلاء نہ ہوتوقضائے حاجت کے لئے ، جمعہ والی مسجد نہ ہوتو نماز جمعہ کے لئے ، کھانا کوئی لادینے والا نہ ہوتوکھانا کے لئے وغیرہ۔
اعتکاف کے منافی امور:
بلاضرورت مسجد سے باہرجانا،جماع یا کسی اور طرح سے قصدا ً منی خارج کرنا اعتکاف کے بطلان کا سبب ہے ۔ اسی طرح حیض ونفاس بھی عورت کا اعتکاف باطل کردے گا۔ ان کے علاوہ بلاضرورت بات چیت، غیرضروری کام میں تضییع اوقات یا عبادت کے منافی کام جھوٹ و غیبت سے بچے ۔ یہ بطلان کا سبب تو نہیں مگر ان سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح مریض کی عیادت، نمازجنازہ اور دفن کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بھی جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف کے مسنون اعمال :
معتکف کو چاہئے کہ دس دنوں میں کثرت سے تدبر کے ساتھ تلاوت، ذکر واذکار، دعا واستغفار اور نفلی عبادات انجام دے ۔خشوع وخضوع اور خضورقلبی کے ساتھ اللہ سے تعلق جوڑنے پہ محنت و مشقت کرے ۔ رمضان تقوی کا مظہر ہے ، اعتکاف سے تقوی کو مزید تقویت بخشے ۔ان ہی دنوں میں لیلۃ القدربھی آتی ہے معتکف کے لئے اسے پانی کا سنہرا موقع ہے ، آپ ﷺ نے اسی غرض سے تینوں عشرے میں اعتکاف کیا۔ جب آخری عشرے میں شب قدر کی خبرملی تو اس میں اعتکاف کرنے لگے ۔
مزید چند مسائل :
٭ اعتکاف کی اس طرح نیت کرنا"نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالیٰ"(میں نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کی) بدعت ہے ۔ نیت محض دل سے کرنا ہے۔
٭ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں (لااعتکاف الابصوم) والی روایت پہ کلام ہے ۔
٭ مسجد میں عورت کے لئے جب تک مخصوص ومحفوظ جگہ نہ ہو تب تک اسے اعتکاف میں بیٹھنا جائز نہیں۔
٭ صرف تین مساجد میں اعتکاف کا اعتقاد بھی صحیح نہیں ہے ۔
٭ اعتکاف کی مدت متعین نہیں ہے اس لئے دس دن سے کم اور زیادہ کا بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے ۔ حدیث میں کم ازکم ایک دن ایک رات کے اعتکاف کا ذکر آیا ہے ۔
٭ رمضان کے علاوہ دیگر ماہ میں بھی اعتکاف کیاجاسکتا ہے جیساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔
٭اگر کسی نے اعتکاف کی نیت کی (نذرنہیں مانی) مگر حالات کی وجہ سے اعتکاف نہیں کرسکا تو اس پہ کچھ نہیں ہے ۔
٭اجتماعی اعتکاف اس طرح کہ ایک مسجد میں کئی معتکف ہوں جائز ہے مگر اجتماعی صورت سے ذکر یا دعا یا عبادت کرنا صوفیاء کی طرح جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف سے متعلق بعض ضعیف احادیث :
(1)منِ اعتَكَفَ عشرًا في رمضانَ كانَ كحجَّتينِ وعُمرتينِ۔( السلسلة الضعيفة:518)
ترجمہ:جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
(2)مَنِ اعتكف يومًا ابتِغاءَ وجهِ اللهِ ؛ جعل الله بينَه وبينَ النارِ ثلاثةَ خنادقَ ، كُلُّ خَندَقٍ أبْعدُ مِمَّا بينَ الخافِقَيْنِ .(السلسلة الضعيفة:5345)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
(3) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعكف الذنوب ، ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها(ضعيف ابن ماجه:352) .
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارہ میں فرمایا :وہ گناہوں سے باز رہتا ہے ، اوراس کے لیے سب نیکی کرنے والے کی طرح نیکی لکھی جاتی ہے۔
(4) مَنِ اعتكفَ إيمانًا واحتسابًا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (ضعيف الجامع (5452) .
ترجمہ:جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئےجاتے ہیں۔
(5)لا اعتكافَ إلا في المساجدِ الثلاثةِ(ضعیف عندشیخ ابن باز،مجموع فتاوى ابن باز25/218)
ترجمہ: اعتکاف تین مساجد کے علاوہ کسی میں نہیں۔
تحریر ۔۔ مقبول احمد سلفی داعی کمیٹی سعودی عرب 
نشر۔اشاعت ۔دعوت الی اللہ گروپ اسلامی ۔

منگل، 6 جون، 2017

رمضان المبارک میں ٹی وی دیکھ کر وقت گزرنا؟


رمضان المبارک میں ٹی وی دیکھ کر وقت گزرنا؟ 
 جواب ۔۔۔  مسلمانوں اور روزے دار پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرے اور اس کا تقوی اختیار کرتے ہوئےجو کچھ وہ سب اوقات میں کر رہا اور چھوڑ رہا ہے اس میں اللہ تعالی سے ڈرے اور اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء سے بچے اور وہ بے ہودہ فلمیں جن میں ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جو کہ اللہ تعالی نے حرام کی ہیں مثلا بالکل اور کچھ ننگی تصویریں اور غلط قسم کے جملے اور کلامت وغیرہ ۔
اور اسی طرح ٹیلی ویژن میں بھی ایسی چیزیں آتی ہیں مثلا تصویریں اور گانے اور گانے بجانے کے آلات اور غلط اور گمراہ کرنے والی باتیں جو کہ اللہ تعالی کی شریعت کے مخالف ہے اور ایسے ہی ہر مسلمان وہ روزے دار ہو یا کہ بغیر روزہ سے اس پر واجب ہے کہ وہ تاش وغیرہ اور دوسرے آلات لہو سے بچے کیونکہ وہ بھی برائی منکرات میں شامل ہیں اور دل کے سخت اور بیمار ہونے کا اور شریعت اسلامیہ کی توہین کا سبب بنتے ہیں ۔
اور اسی طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں پر جو باجماعت نمازیں اور دوسرے واجبات مقرر کۓ ہیں ان میں بھی سستی اور کاہلی پیدا ہوتی اور بہت سے محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ تعالی کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لۓ رسوا وذلیل کرنے والا عذاب ہے اور جب اس کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئےہیں آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں ) لقمان / 6 – 7
اور اللہ سبحانہ وتعالی سورۃ فرقان میں اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
( اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر سے ان کا گزر ہوتا ہے تو وہ شرافت سے گزر جاتے ہیں ) الفرقان / 72
اور الزور سب منکرات برائی کو شامل ہے اور لا یشہدول کا معنی یہ ہے کہ وہ خاطر نہیں ہوتے ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
( میری امت میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو شرم گاہ اور ریشم اور شراب اور گانے بجانے کے آلات کو حلال کر لیں گے )
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح بخاری میں جزم کے ساتھ تعلیقا روایت کیا ہے ۔
الحر سے مراد حرام شرمگاہ اور المعازف سے مراد گانا بجانا اور آلات موسیقی ہیں ،
اور اس لۓ بھی کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے مسلمانوں پر ان وسائل کو حرام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ حرام کام میں پڑ جائیں اور اس میں کوئی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کہ غلط قسم کی فلمیں اور جو کچھ منکرات میں سے ٹیلی ویژن میں پیش کیا جاتا ہے وہ ایسے وسائل میں سے جس کا انکار کرنے اور روکنے میں لوگوں نے تساہل سے کام لیا ہے اور اللہ عزوجل ہی مدد گار ہے ۔
فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 158
Join us on whtsapp n other social 
networks 
http://dawatullahalla.blogspot.com/2017/06/blog-post.html

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی 1- کیا سلفی (اہل حدیث) دہشت گرد ہیں؟ https://youtu.be/n6MXkZqzAc0 2- سلفیت کا تعارف https://youtu.be/W99...