جمعرات، 13 اپریل، 2017

https://www.facebook.com/sm681377/?fref=ts

https://www.facebook.com/sm681377/?fref=ts


ایک من گھڑت روایت کی تحقیق


سوال : بعض صوفیا یہ حدیث ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا كنت كنزا مخفيا لا اعرف فاحببت ان اعرف فخلقت خلقا فعرقته بي فعرفوني ’’ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پہچانا نہیں جاتا تھا۔ میں نے پسند کیا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے مخلوق پیدا کی، میں نے انھیں اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا “۔ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من يقل علي الم أقل فليتبوأ مقعده من النار
’’ جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ آ گ میں بنا لے “
[بخاري، كتاب العلم : باب اثم من كذب على النبى صلى الله و عليه وسلم 107]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض لوگوں نے روایتیں گھڑ کر جر م عظیم کا ارتکاب کیا اور روایات وضع کرنے والے مختلف اقسام اور مختلف اغراض پر مبنی لوگ ہیں ان میں سے بعض نام نہاد صوفی منش لوگ بھی ہیں اور یہ روایت بھی انہیں متصوفین کا شاخسانہ ہے۔
اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ليس من كلام النبي صلي الله عليه وسلم ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف . 
’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے نہیں ہے اور اس کی صحیح یا ضیعف کوئی سند معروف نہیں۔ “ [مجموع الفتاوي : 18/ 122، 376]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول کی متابعت امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بدر الدین الزرکشی نے ’’ [التذکرہ فی الاحادیث المشتهره 136، الباب الثالث فی الزھد، الحدیث العشرون] میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے کی ہے۔
دیکهیں ! [المقاصد الحسنة للسخاوي (838) (327)، كشف الخفاء ومزيل الالباس از اسماعيل العحلوني (2019) (132/2)، الاسرار المرفوعة فى الاخبار الموضوعة از ملا علي قاري (353)، احاديث القصاص (3)، اسني المطالب (1110)، تمييز الطيب من الخبيث (4510)، الدرر المنتشرة 330، تذكرۃ الموضوعات]
معلوم ہو ا کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور متصوفین کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہے۔
ملا علی قاری نے اس کے مفہوم کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے اور سورۂ ذاریات کی آ یت [56] وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون میں ليعبدون کا معنی ليعرفون کیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدار کیا کہ وہ مجھے پہچان لیں اور اس تفسیر کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا ہے۔
[الاسرا المرفوعة : 269 تحت رقم 303 ]
ملا علی قاری کا قول درست نہیں ہے۔ اس قول کی نسبت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف کی گئی ہے اس کی پختہ سند کی حاجت ہے۔ پھر قرآن و سنت میں جو صفات باری تعالیٰ ہم پڑھتے ہیں یہ روایت اس کے معارض ہے، اللہ عزوجل مجہول خزانہ کیسے ہو سکتے ہیں : وہ عزت و جلال والا کیسے نہ پہنچانا جائے۔
ایسی روایات وضع کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے اجزائے خاملہ اور اقوال سخیفہ سے محفوظ فرمائے۔ آمين !

 مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

ہفتہ، 8 اپریل، 2017

امراض و اسقام ایک ایسی آزمائش ہے


تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جو تما م جہانوں کا پالنہار ہے ، اور میں اپنے نبی حضرت محمدﷺ، ان کی آل و عیال اور ان کے تمام جانثار صحابہ پر درود وسلام بھیجتاہوں ۔
امابعد……
امراض و اسقام ایک ایسی آزمائش ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو آزماتا ہے اس لئے کہ اس میں بہت سی فوائد اور عبرتیں ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے سربستہ بھید ا ور حکمتیں ہیں جن کا ادراک حضرتِ انسان غورو تدبرا ور حسنِ نظر سے باآسانی کرسکتاہے ، اور یہ تو مشہو ر کہاوت ہے کہ :’’بسااوقات جسم بیماریوں سے بھی صحتیاب ہوجاتے ہیں‘‘۔اور بیماریوں کے ذریعے بندوں کو آزمانے میں ایک سب سے بڑی حکمت تویہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار ومولا کی طرف رجوع کریں تاکہ ان کے دل سب سے کٹ کر صرف اپنے پروردگار سے جڑ جائیں ، اس لئے کہ شفاء تو اسی کے ہاتھ میں ہے ، جیسا کہ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے پرودگار کی مدحہ سرائی کرتے ہوئے فرمایا:(ترجمہ) ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفادیتاہے ‘‘اسی لئے تومصیبتوں کا مارا اسے دل سے پکارتا ہے تاکہ جن بیماریوں میں وہ گھرا ہواہے ان سے اسے خلاصی عطاکرے۔
اوریہ بات قابل تعجب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ (بندوں سے) آزمائشوں کے ذریعہ دعا کو اور عطاء کے ذریعہ شکرکو نکالنا چاہتا ہے، وہب بن منبہ ؒ فرماتے ہیں کہ:’’افتاد و آزمائش اس لئے اتاری جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعے (بندے سے ) دعا نکالی جائے ‘‘۔اورانسان جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(ترجمہ) ’’اورجب اس کو کوئی برائی(پریشانی وتکلیف) چھوتی ہے تو پھر بڑی لمبی لمبی دعائیں مانگتاہے‘‘۔اور ان انبیاء کی سیرت میں جن کے نقشِ قدم پر چلنے کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے ان میں حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بیماری میں مبتلا کیا ، کہ جب وہ بیماری طول اورشدت اختیار کرگئی تو وہ اپنے پروردگارکے حضور گڑگڑاکر دوہائی دینے لگے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’اور اس وقت کا تذکرہ سنو! جب ایوب نے اپنے پرودگار کو پکارا کہ (اے میرے رب) مجھے تکلیف نے چھوا ہے اورتو سب رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے‘‘۔تو (اس پر)کریم و منان ذات نے بھی ان کی فریادرسی کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ)’’پس ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہا اور ان کو لاحق تکلیف کو ان سے دورکیا‘‘۔
لہٰذا مقاصد کو پانے کا سب سے بڑا وسیلہ دعا ہی ہے ، کتنے ایسے بیمار ہیں جب ان کی بیماری طول اختیار کرگئی اور ا ن کی آزمائش بڑھ گئی اورانہوں نے اللہ کے سامنے اپنا شکوہ بلند کیا تو فوراََ ان کے پاس اللہ کی طرف سے آسانی اور رحمت کا نزول ہوا۔
ایک شاعر کہتاہے :(جس کا ترجمہ ہے)
’’اس مریض سے کہو کہ جب طب کے سارے فنون اس کو شفاء دینے سے عاجز آگئے او ر اس کے بعد اس نے بیماری سے نجات اور عافیت پائی تو کس نے اسے عافیت دی‘‘؟
اورکتنی تعجب کی بات ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے فیصلہ بھی پلٹ لیا،یعنی جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل ظاہری اسباب کی طرف چلے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں حالانکہ وہی شفا دینے والا ہے اس کے سوا کوئی نہیں شفا دینے والا۔ تمہیں (یہاں) کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے کہ جب ان کو بیماریاں گھیرتی ہیں تو ان کے دل فوراََ ڈاکٹروں اور دارُو دُرمل کی طرف چلے جاتے ہیں، اور انہی سے بیماری کے دور ہونے اور شفاء کی امیدیں وابستہ کردیتے ہیں، اور پھر وہ ان کو خدائی کے درجے میں رکھ دیتے ہیں، تو پھر جن بیماریوں نے ان کو گھیرا ہوتا ہے اس سے زیادہ خطرناک ان کے دلوں کا بگاڑ اور فسادہے ۔
شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے):-
’’اس طبیب سے پوچھو جسے موت کے ہاتھوں نے اچک لیا کہ اے بیماریوں کے علاج کرنے والے کس نے تمہیں موت کی نیند سلادیا؟‘‘
اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ویرانوں اور بیابانوں کی خاک چھانی، اور جنہوں نے صحرا نوردی کی اور سمندروں کی موجو ں کو چاک کیا ،اور پورب و پچھم میں شہردر شہرگھومے پھرے (محض) جادوگروں اور شعبدہ بازوں سے ملنے کے لئے ، اور انہی سے مصیبت اور تکلیف  کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، تو اس طرح انہوں نے ان کے جسموں کو ٹھیک کر نے کے لئے ان کے دل برباد کردئیے، اور آخر کا ر ان کے دل بھی بربادہوجاتے ہیں اور ان کے جسم بھی کمزور ہوجاتے ہیں ۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے(ترجمہ) ’’اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات کے کچھ لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے اس طرح ان لوگوں نے جنات کو اور سر چڑھا دیا تھا‘‘ ۔لہٰذا جو بھی شخص نجومی ، جادوگر یا کاہن کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی پوچھی گئی بات میں اس کی تصدیق کرے تو یقینا اس نے اس شریعت کا انکا ر کیا جومحمدﷺپر اتاری گئی ہے ، اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے غافل ہوگئے ہیں اس لئے ان کو ان کی جانوں کے سپرد کردیا گیا اور ان کے دل اللہ سے نہیں جُڑے ،  اور اگر وہ ذرا بھی ہوش کے ناخن لیں تو اچھی طرح اس بات کو جان لیں گے کہ سارے کے سارے امور تو صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہی ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :(ترجمہ) ’’ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو مصیبت کو دور کرے ‘‘۔ اور اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں (ترجمہ)’’اور جو اللہ پر توکل کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ‘‘۔یعنی جو بھی گردشِ دوراں اور حوادثِ زمانہ میں اللہ پر بھروسہ کرتاہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتاہے اور جو معاملہ اسے پریشان کرتاہے اللہ اس میں اس کے لئے کافی ہوجاتاہے ، لہٰذا ہر مصیبت زدہ کے لئے میری نصیحت ہے چاہے وہ بیمار ہو یا کسی اور تکلیف میں ہوتو وہ اپنا دکھڑا اس اللہ کو سنائے جو ہر رات اسے آواز دے کر پکار تاہے ’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تاکہ میں اس کی دعا پوری کروں ؟کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے عطاکروں ؟کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کی بخشش کروں ؟‘‘۔
شاعر کہتا ہے (جس کا ترجمہ ہے)
ــتمہیں جو بھی حاجت درکار ہو تو صرف خدائے رحمن پر بھروسہ کر کیونکہ ایک وہی ہے جو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘‘۔
اسی طرح میں ان کو صبر کا دامن تھامنے، اچھے حالات کا انتظار کرنے ، اور اللہ کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے کی بھی نصیحت کرتاہوں ، کیونکہ کتنی ایسی مصیبتیں ہیں جو مصیبت زدہ کے لئے دنیا و آخرت میں خیر وعافیت سے زیادہ بہترہیں، امام بخاریؒ نے (۵۶۵۲) اور امام مسلمؒ نے (۲۵۷۶) میں حضرت ابن عباسؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ :’’ ایک کالی عورت خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے (بسااوقات) مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے میرا ستر کھل جاتاہے لہٰذا آپ اللہ سے میرے لئے دعا کریں ! آپﷺنے (یہ سن کر) ارشاد فرمایا: اگر تم چاہو تو اس پر صبر کرکے جنت لے لو اور چاہو تو میں اللہ سے تمہاری صحت و عافیت کے لئے دعا مانگوں۔ وہ عرض پرداز ہوئی : میں صبر تو کرلوں گی لیکن میرا سترکھلتا ہے لہٰذا آپ صر ف یہ دعا کریں کہ میر ا ستر نہ کھلے ، پھرآپ ﷺنے اس کے لئے یہ دعا مانگ لی ‘‘۔
اس لئے کہ صبر کے ساتھ اس آزمائش میں اس عورت کے لئے خیر تھی ا س لئے آپﷺنے اس کو اختیار دیا، پس ہم بھی اللہ کے حضور دستِ دعا بلند کرکے اللہ سے ہمیشہ کی خیر و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
كلمات في التداوي

پیر، 3 اپریل، 2017

دعوت اللہ کی ابتدا


الحمد للہ :
دعوت الی اللہ میں مشروع ہے کہ دعوت کی ابتداتوحید سے کی جاۓ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورباقی سب انبیاء نے کیا ، اورپھرحدیث معاذ رضی اللہ تعالی عنہ میں اسی چيزکا ذکر ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا تھا :
( آپ اہل کتاب کی ایک قوم سے پاس جارہے ہیں ، جب ان کے پاس جائيں توانہیں دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اورمعبود نہیں اوریہ بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اگرانہوں نے اس کا اقرار کرلیا توپھران کے علم میں یہ لائيں کہ اللہ تعالی نے دن رات میں ان پرپانچ نمازيں فرض کیں ہیں ، اگروہ اسے تسلیم کرلیں توپھرانہیں یہ بتائيں کہ اللہ تعالی نے ان پرزکاۃ فرض کی ہے جومالداروں سے لے کر غرباومساکین کودی جاۓ گی ، اگر وہ اس میں بھی آپ کی بات مان لیں توان کے کے اچھے اوربہتر اموال سے بچ کررہ اور مظلوم کی آہ سے بھی بچ کررہنا اس لیے کہ مظلوم کی آہ اوراللہ تعالی کے درمیان کوئ پردہ نہیں  ) ۔
یہ توتھا کہ اگر مدعوین کافرہوں اوراگر مدعوین مسلمان ہوں توانہیں وہ دینی احکام بیان کیے جائيں جن وہ جاہل ہوں اوران احکام کی ان مسلمانوں میں کمی ہو اوراسی طرح پہلے سب سے اہم چيزکا خیال رکھا جاۓ اوراس کے بعد اس سے کم درجہ کی اہمیت والا ۔
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12/ 238 )

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی 1- کیا سلفی (اہل حدیث) دہشت گرد ہیں؟ https://youtu.be/n6MXkZqzAc0 2- سلفیت کا تعارف https://youtu.be/W99...